مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی مجلس شورائے اسلامی (پارلمنٹ) کی پارلمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے چیئرمین عباس گلرو نے مہر نیوز کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ 2015 کا ایٹمی معاہدہ امریکہ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوا جبکہ جوہری مذاکرات میں امریکی نمائندوں نے ظاہر کیا کہ وہ اس میدان میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مذاکرات میں امریکی حکام نے اپنے یورپی ثالثوں کے ذریعے ہم تک جو باتیں پہنچائیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صرف وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ ایران کی جوہری صورتحال ماضی کی طرف پلٹ جائے جس میں ہمارے ملک کی یورینیم افزودگی کی فیصد اور سینٹری فیوج کی تیاری بھی شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام کے لیے امریکی حمایت کو عملی طور پر اور پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات کے میدان میں ظاہر کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے ایران رابرٹ میلے اور سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن سمیت کچھ امریکی حکام نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ جوہری معاہدہ امریکہ کی ترجیح نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر بائیڈن نے یہاں تک اعلان کیا کہ ان کی ترجیح ایران کے اندرونی مسائل ہیں اور ایرانی عوام کی حمایت کرنا سراسر جھوٹ ہے۔
گولرو نے زور دے کر کہا کہ مذکورہ بالا تمام معاملات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ انتظامیہ میں امریکی حکومت کی طرف سے مذاکرات کے عمل میں کوئی اقدام کرنے کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری امید امریکہ سے نہیں ہے اور ہماری امید ہمیشہ ہمارے اپنے مذاکرات کاروں کی کوششوں میں ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بقول ہمیں ملک کے خلاف عائد ظالمانہ اور غیر منصفانہ پابندیوں کو ہٹانے اور بے اثر کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں جبکہ امریکی کبھی بھی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں رہے ہیں۔
پارلمانی کمیٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ اس وقت بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایران کے امور میں امریکہ کے نمائندے نے مختلف ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ اور مذاکرات امریکہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں اور امریکی یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل جیسا شخص جو کسی حد تک مذاکرات کی کوشش کر رہا تھا، نے بھی اب ایران کے خلاف معاندانہ موقف اختیار کیا ہے اور غیر متعلقہ بیانات دیئے ہیں اور یورپ نے حال ہی میں ہمارے ملک کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
آپ کا تبصرہ